برسلز:
چیئرمین کشمیرکونسل ای یو علی رضا سید نے کہاہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کی ریاستی دہشت گردی نے خطے میں نفرت اور شدت پسندی کو بڑھاوا دیاہے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے جرمنی کے شہر کوٹبوس کی برانڈنبرگ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں نفرت کے خاتمے اور انسانی اقدار کے تحفظ پر منعقد ہونے والے ایک مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
’نفرت کو مزید موقع نہ دیا جائے‘‘ کے عنوان سے اس مذاکرے کا اہتمام جرمن تنظیم ’’سچلوس مت ھاس‘‘ نے کیا جسے روح روان انسایت کے دو جرمن علمبردار ’’مس ارمیلا منساہ سچارم اور ماتھیس ٹریتسچوگ‘‘ ہیں۔
علی رضا سید جن کی گفتگو کا موضوع ’’کشمیرکا تحفظ‘‘ تھا، نے کہاکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے تشدد اور نفرت کو پھیلایاہے۔ مظلوم اور معصوم کشمیری بھارتی درندگی اور نفرت کا نشانہ بنے ہیں۔ مقبوضہ کشمیرمیں سترسالوں کے دوران بے شمار لوگ بھارتی تشدد کا شکار ہوچکے ہیں، جبری گمشدیوں اور جنسی تشدد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گذشتہ سال پیلٹ گن سے سینکڑوں لوگ اپنی بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان میں کم سن لڑکی انشا کی مثال نمایاں ہے۔
انھوں نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی اور تشدد کو روک کر نفرت اور انتہاپسندی کو ختم کیا جاسکتاہے۔ انھوں نے کہاکہ دنیا کو بھارتی مظالم سے آگاہ ہونا چاہیے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ بھارت کی طرف سے جمہوریت کا سب سے بڑا دعویدار ہونے کا پول دنیا کے سامنے کھولے اور اس کی کشمیریوں پر بربریت کو بے نقاب کرے۔
علی رضا سید نے کہاکہ صرف کشمیرہی نہیں بلکہ بھارت کے اندر اقلیتیں اور چھوٹی قومیتیں بھی بھارت کی ظالمانہ پالیسیوں اور اونچے طبقات کے متعصبانہ رویوں سے محفوظ نہیں۔ خاص طور پر موجودہ وزیراعظم نریندرا مودی کے برسر اقتدار آنے سے نفرت اور انتہاپسندی کو بہت فروغ ملا ہے۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ کشمیرسمیت تمام مسائل کو پرامن طریقے سے حل کیا جاناچاہیے تاکہ دنیا میں نفرت اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے راہ ہموار ہوسکے اور امن و آشتی کو فروغ دیا جاسکے۔
چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے کہاکہ آج امریکہ، یورپ اور جاپان نے پرامن ماحول میں ترقی کی ہے۔ نفرت اور انتہاپسندی سے کوئی ملک و قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ نفرت اور انتہاپسندی ایسے موذی عوامل ہیں جو معاشرے کو دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ ہم دنیا کے تمام مظلوم اقوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور منافرت اور انتہاپسندی سے برات کا اعلان کرتے ہیں۔
مذاکرے میں یمن سمیت دنیا کے دیگر مسائل پر بھی گفتگو کی گئی اور خاص طورپر یورپ خصوصاً جرمنی میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی اور نفرت جیسے رحجانات بھی زیربحث لائے گئے۔